میں اور میرا مستقبل
کیا میری تعلیم میری دُشمن ہے؟ کیا میں اس قابل نہیں کہ دُنیا کے نئے تقاضوں کو پورا کر سکوں ؟ کیا میں کبھی اپنی منزل کو نہیں پہنچ پاءوں گا؟ کیا میں حقیر ہوں؟
اس طرح کے کئی سوالات انسان کے ذ ہن میں اُس وقت آتے ہیں جب وہ فارغ ہو تا ہے اور اُس کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا تو اس طرح کے سوالات کی بوچھاڑ اُس کے دماغ کو ہلا کر رکھ دیتی ہے ۔ منزلوں کا تعین ہوتے ہوئے بھی وہ راستہ نہیں پکڑ سکتا ۔ پھر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا کیا جائے جس سے کہ ہم اپنی وُقعت کو بنا لیں خیالوں میں اپنے آپ کو ہم اچھے سے اچھے مقام پر دیکھتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم کسی بھی جگہ پر نہیں ہوتے اور جب خیالات کی اس دنیا سے باہر آتے ہیں تو سوائے ٹینشن اور ذہنی کھچاءوکے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور سامنے آنے والا شخص بھی بہت بُرا لگ رہا ہوتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی منفی حالت سے انسان کیسے باہر نکلے اور کس طرح سے اپنی زندگی کو یوں آگے بڑھائے کہ پچھلے تمام راستے جو کہ منفیت کی طرف جاتے ہیں با لکل بند ہو جائیں اور اُ ن کی طرف دیکھا بھی نا جائے تاکہ انسان اپنی اگلی زندگی کو بخیر و خوبی بسر کر سکے ۔
زندگی میں بہت سی پریشانیاں ساتھ آتی ہیں جیسے نوکری کا نہ ہونا ،صحت کا مسئلہ،اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کوئی عُمدہ پلاننگ اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی انسان کو ناحق ستایا جاتا ہے تو وہ صبر کیسے کرے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ انسان ظُلم وجبر سے یہ ستایا جائے بلکہ انسان نظر انداز کر کے بھی ستایا جاتا ہے پہلے وہی انسان بہت عزیز ہوتا ہے لیکن جیسے ہی کام اور مقصد پورا ہو جاتا ہے تو اُسی انسان کا وجود آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے اور پھر تا حیات ایک زہریلی نفرت کا سامنا اُس کا مقدر بن جاتا ہے اور پھر وہ انسان گُھٹ گُھٹ کر جیتا ہے موت کی صدائیں لگاتا ہے لیکن پھر نہ تو موت آتی ہے اور نہ ہی زندگی کے معاملات سنورتے ہیں ۔ تو جناب ان تمام مشکلات کا حل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ صرف اور صرف یہ یاد رکھیں کہ آپ کو دُنیا میں بھیجنے کا مقصد کیا ہے؟ آخر آپ کے وجود کی جو تخلیق کی گئی ہے وہ کس لیے کی گئی ہے ؟ جب آپکے سامنے یہ تمام سوالات آجائیں گے تو آپ یقیناََ اداس اور پریشان ہونا چھوڑ دیں گے اور آپ کی زندگی آپ کے لیے خود بخود آسان ہو جائے گی ۔ سیانے کہتے ہیں کہ اپنے تمام معاملات اپنے اللہ کے سُپرد کر دو ۔ ہم اپنے معاملات اللہ کے سُپرد کرتے تو ہیں لیکن پھر بھی منفی باتو ں کو سوچتے ہوئے پریشان ہوتے رہتے ہیں ۔ اس طرح ہم اپنا توکل پورا نہیں کرتے ہم اپنے آپ کو ان معاملات کے درمیان رکھتے ہیں جو کہ کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں ہے ۔ اس طرح ہم پڑھے لکھے ہوتے ہوئے بھی جہلا سے بد تر سوچ کے مالک بن جاتے ہیں ۔ اللہ کی اس پوری کائنات میں ہر پریشانی کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہوتا ہے ۔ تو جناب سب سے پہلے ہ میں خود کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے اپنا رویہ خود کے ساتھ مُثبت رکھیں تاکہ یہ زندگی اور دُنیا جو کہ بھلے پھولوں کی سیج نہیں ہے لیکن ہم اس کو بنا سکتے ہیں جب ہم دوسروں کی پروا کر نے کی بجائے اپنی پروا کرنی شروع کرتے ہیں تو ہماری آدھی سے زیادہ پریشانیاں خود بخود ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر ہمارے سامنے وہ راستے نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے ۔ ہم مشکلات کے حل کے لیے وظاءف بھی کرتے ہیں یعنی ہمارا ایمان کامل ہوتا ہے کہ .تو پھر وظیفہ پوری ہونے کی شرط یہی ہے کہ جس مسئلے کے لیے اللہ کا ذکر ہم کر رہے ہیں تو پھر اُس مسئلے کو پوری طرح اللہ کے حوالے کر دو اور خود سے بھی کوشش کرو کہ ہماری خامیاں بھی دور ہو جائیں اگر اس عمل پر ہماری گرفت مضبوط ہو جائے تو اللہ کی رحمت ایک مضبوط سائے کی طرح ہمارے ساتھ چل پڑتی ہے اللہ ہمارے ساتھ ہے
اقبال نے کی خوب کہا ہے کہ
اپنا مقام خود پیدا کر اگر تو زندوں میں ہے
اگر ہم خود قدم اُٹھا کر نتیجہ اللہ پر چھوڑتے ہیں تو آپ یقین کریں کہ ہمارے اندر ایک ایسی طاقت آتی ہے جو کبھی بھی ہمیں تھکنے نہیں دیتی اور وہ طاقت ہوتی ہے مستقل مزاجی کی جو کہ ہر کامیابی کی چابی ہوتی ہے ۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں لوگ کوئی بھی ہوں کیسے بھی ہوں ان کے ساتھ ہمیشہ ایسے ہی رہیں جیسے کہ وہ خود آپ کے ساتھ ہیں آ پ بہت آسانی سے لوگوں کو جانچ سکتے ہیں وہ ایسے کہ آپ جب بھی کسی سے ملتے ہیں تو اُس کے انداز ِ گفتگو کو دیکھیں تو آپ کو فوراََ اندازہ ہو جائے گا کہ وہ انسان آپ سے کس حد تک مخلص ہے ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں آپ دنیا اور اس دنیا کے لوگوں سے بھاگ نہیں سکتے نہ ہی فرار کا کوئی راستہ ہوتا ہے آپ کو اپنے کردار کی عمارت خود اپنی عقل سے تعمیر کرنی پڑتی ہے ۔ یہ کبھی نہ سوچیں کہ اگلے انسان نے آپ کو استعمال کر کے چھوڑ دیا بلکہ یہ دیکھیں کہ آپ کی کمزوری کہاں تھی جس کا وہ بھرپور فائدہ اُٹھا گیا ۔ تو جناب سب سے پہلے اپنی تمام کمزوریوں پر نظر رکھیں اور اُس کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ اپنی بے وُقعتی پر رونے سے سوائے ڈپریشن کے اور کچھ نہیں حاصل ہوتا ۔ اسی لیے مستقل مزاجی اور پائیدار حکمتِ عملی کو اپنائیں ،ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اگر آپ موٹے ہیں اور کافی عرصے سے کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس مرض سے نجات مل جائے لیکن نہیں ملتی اس کے برعکس جو لوگ آپ سے بھی موٹے ہوتے ہیں وہ فوراََ اپنی ٹارگٹ پر پہنچ جاتے ہیں اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ وہ لوگ مستقل مزاجی سے کام لیتے ہیں اور اپنے آپ میں عہد رکھتے ہیں کہ اس مرض کو ہرانا ہے صحت بیشک اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اس بات کو کبھی فراموش نہ کریں کہ اللہ ہمیشہ اُن کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اسی لیے مستقل مزاجی سے اپنی زندگی کی جنگ کو لڑیں تاکہ کامیابی آپ کا مقدر بنے ۔ کسی انسان کے بُرا کہہ دینے سے آپ کبھی بھی بُرے نہیں بن جاتے ۔ اس لیے اپنی خامیوں پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں اور راستے بناتے جائیں ۔ کئی ایسے لوگ بھی آپ کو زندگی کے سفر میں ملیں گے جو ہر طرح سے اپنی گرومنگ کرتے ہیں اور نیٹ کے ذریعے بھی وہ آپ سے آگے نکل جاتے ہیں ۔ تو اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ اگر آگے بڑھنے والے آپ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو دیکھنے دیں آپ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئیے کیونکہ جو آپ ہیں وہ ،وہ نہیں ہیں اسی طرح جو وہ ہیں وہ آپ نہیں ہیں ۔ قدرت نے ہر انسان کو ایک دوسرے سے بہت مختلف بنایا ہے اپنے آپ کو قیمتی بنائیں تاکہ لوگوں کو آپ تک رسائی کرنا تھوڑا مشکل لگے کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ہم کسی کو آسانی سے مُیسر ہوتے ہیں تو ہماری قیمت اور قدر دونوں کم تو کیا ختم ہو جاتی ہے ۔ ہر کسی کے لیے آسانیاں ضرور پیدا کریں لیکن اپنی عزتِ نفس کو کبھی بھی نظر انداز نہ کریں ۔ کامیابی کا اُصول ہمیشہ یہی رہا ہے کہ آپ کبھی بھی اپنی راہ کی رُکاوٹوں سے نہ گھبرائیں خاص طور پر لوگوں کے منفی رویوں سے اور اپنے آپ کو کبھی بھی ان چیزوں کا ذمہ دار نہ ٹھرائیں کہ آپ لوگوں کی نفرت اور فراموشی کے قابل ہیں ،ہمیشہ یاد رکھیں کہ قیمتی انسانوں کو ہر کوئی نہیں سہار سکتا اس لیے عملی دُنیا میں قدم رکھیں اور سب کچھ اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنی کامیابی کو یقینی بنائیں
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
تُندیِٗ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عُقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
Jazakallah