مجھے آزاد کرو
یہ وہ آواز ہے جو کبھی کبھی ہمیں اپنی ذات کے اندر سے آتی ہے لیکن ہم اس آواز کے درد کو بالکل بھی نہیں سُنتے اور نہ ہی اس کا احساس کرتے ہیں۔ہمیں بس بھیڑ چال کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ بس ہم اُسی دوڑ میں شامل ہونے کو اپنی کامیابی اور عقل مندی سمجھتے ہیں لیکن شاید ہمیں اس کے اُس نقصان کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ جس کی تلافی یا تو ممکن نہیں یا پھر بہت مشکل ،لیکن جب تک ہمارے اندر کی خوبیوں کی دھمک ہمیں جھنجھوڑے گی نہیں اُس وقت تک ہم اپنی خود کی دوڑ شروع نہیں کر سکیں گے ۔ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے سے منفرد نظر آئے اُس کی خود کی ایک الگ پہچان ہو لیکن اس کے نتیجے میں کرنے والی محنت سے ہر کوئی دور بھاگتا ہے۔ہائے ہائے ہائے! ہماری معصوم روح جو ہمیں اُکساتی تو ہے لیکن جی اس بیچاری کی سُنے کون نہ جی نہ ہمیں تو آسانیاں چاہیئے ،چاہے ہم کولہو کے بیل ہی کیوں نہ بن جائیں پھر گلہ اپنی قسمت سے کیوں ہمیں پھر تو خوشی خوشی اس بھیڑچال کی دوڑ کو اپنانا چاہیئے ۔ساری تحقیقات جائیں بھاڑ میں ۔ضمیر کو سُلا دو بس پھر تو خیر ہی خیر پتہ نہیں کون لوگ کہ گئے
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
اس شعر میں کسی نے اپنی انقلابی روح کو نجانے کن شاہینوں میں دیکھنے کی کوشش کی ہے جو سہل پسندی کے ساتھ کسی مقام پر پہنچ کر اُسے اپنی منزلِ مقصود قرار دیتے ہیں۔ارے جناب! اپنا مقام بنانے کے لیے انسان کو اُس بھٹی میں جلنا پڑتا ہے جس میں جل کر وہ کندن بنے یعنی اگر منزل پر پہنچ بھی جائے تب بھی وہ بےقرار رہے کہ مجھے اگلی نسل کو اپنے سے بھی اُونچا اُڑتے دیکھنا ہے ۔اس کے لیے ہمیں پہلے خود کو یعنی اپنی ذات کو اُس پنجرے سے آزاد کرنا ہو گا جس میں ہمیں قید کر دیا گیا ہے یعنی وہ پنجرہ جس کا نام منفیت ہے ۔منفیت بہت سے روپ لے کر ہماری زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے ،اگر اپنی سوچ کی نظریں آسمان کی جانب رکھو اور دل کی زمین کو عاجزی کی کھاد سے زرخیز کرو تو میرا نہیں خیال کہ کوئی رُکاوٹ ہمیں توڑ سکتی ہے یا پھر ہمیں ہرا سکتی ہے ۔
ہمارے دلوں کا سکون اگر مسلسل محنت میں ہے تو ہمیں ہر حال میں اس سکون کو پانا ہو گا۔اس دُنیا میں ابھی بہت ظہور باقی ہے ہمیں اُن کے ظاہر ہونے کا انتظار نہیں کرنا بلکہ اُن کو کُریدنے کی کوشش کرنی ہے تاکہ آئندہ نسل میں بھی محنت اور ہمت کی طاقت آ سکے ۔ہماری نوجوان نسل محنتی ضرور ہے لیکن محنت کے درست اُصولوں پر اُن کی راہ ہموار نہیں ہے۔وہ لوگ ہمت تو کرتے ہیں لیکن آسانی یا سہل پسندی کی طرف ہی رہ جاتے ہیں اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ ہم پہلے تحقیق کتابوں سے کرتے تھے لیکن اب ہم ساری تحقیق اپنی ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں بلا شبہ ہمیں اچھی چیز بھی مل جاتی ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ ہم پر محدود بات یا تحقیق پر ہی بس اکتفا کر لیتے ہیں ۔اگر یوں ہی ہوتا رہا تو آئندہ کچھ سالوں میں ہم اپنی ہی ذات میں اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے اور پھر مجھے آزاد کرو کی صدائیں ہمارے تمام اعصاب کو شل کر کے رکھ دیں گی ۔
یہ دُنیا ایک ایسی عمل گاہ ہے کہ اس کے اضطراب یعنی بے چینی میں بھی سُکون ہے ۔
بقول اقبال
ہے بجا شیوہءتسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہءدرد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اس کیفیت سے بچنے کے لیے ہمیں آزادی کو ٹوٹ کر حاصل کرنا ہو گا تاکہ روشنی کی مشعلیں کمزور نگاہوں والوں کو راستہ دِکھا سکیں ۔جس طرح ماضی میں ڈھیرو ں مفکرین نے آزادی کے معانی کو الگ الگ ڈھنگ سے بتایا ہے اور اس کے اہمیت کو اُجاگر کیا ہے ۔
آئیے اپنی سوچ اور اپنی روح کو اپنے ہی نفس کے پنجرے سے آزاد کریں تاکہ ہماری صلاحیتوں کا پرندہ ہماری خواہشوں کے آسمان میں پرواز کر سکے۔
محترمہ ریحانہ یونس rehana.younus@yahoo.com
jzakallah
Its give me strength to write more and more
Waooooo superb and great message which can exactly boost up your nerves. Good luck 👏💫
Mashallah beautifully written
Mashallah beautifully written, a very deep and sensitive thinking. Good luck
Wow, this piece of writing is pleasant, my younger sister is analyzing these things, thus I am going to tell her. Rahel Conrade Newcomb