ہم زندہ قوم ہیں
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
اگرچہ ہم بحیثیت قوم اپنی ساکھ کے اعتبار سے آج صف اول کی اقوام میں شمار نہیں؛ اگرچہ آج ہمارے ہراول دستے کی صفیں پریشان اور ہمارا عالم ویران ہے، لیکن۔۔۔۔۔انصاف کا ترازو ہاتھ میں لے کر اگر حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ اسی قوم کی خودی،خود ارادی، خود داری اور سب سے بڑھ کر سخاوت اور فراخدلی کا اعتراف دنیا بھر کی نامور شخصیات کر چکی ہیں۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد کی امیج اور ساکھ وہ نہیں جو دکھائی ،بتائی، سنائی اور پڑھائی جاتی ہے، بلکہ یہ تو وہ قوم ہے جس نے مذہبی، سیاسی اقتصادی،اقوامی،نسلی، اور نسبی تفریق سے بالاتر ہو کر امن و خوشحالی کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔۔یہ وہ قوم ہے کہ جسےشخصی و فوجی مار سمیت کسی بھی معرکے میں مات نہیں دی جاسکتی،مگر جذباتی اور بے پناہ حساس طبع یہ قوم ہمیشہ نفسیاتی طور پر گرائی گئی ہے، ہما ری بدنامی، ہماری رسوائی کا سبب وہ لوگ ہی ہیں جو بظاہر ہمارے معاشرے کا حصہ تو ہیں لیکن درحقیقت اس قوم کے مخالفین کا آلہ کار ہیں۔۔ یہی نہیں؛ مختلف اوچھےہتھکنڈوں کے ذریعے بھی اس قوم کے اخلاقی مورال کو گرانے کی کوشش کی گئی، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عالم کفر نے کبھی بحیثیت قوم ہمیں دہشتگرد کہا تو کبھی لالچی، کبھی ماتھے پر مفاد پرستی کا دھبہ لگایا تو کبی مکاری کا قدغن۔۔۔۔مگر، بھلا ہو اس قوم کا اور عبدالستار ایدھی جیسے اس قوم کے ان سپوتوں کا جنہوں نے اپنی ساری عمر اہنی کل کائنات انسانیت اور محض انسانیت کے نام اور خدمت پر موقوف کردی،اور دھو دیا وہ داغ جو ہماری قوم کے چند غدار بلکہ قلیل القلب لوگوں کی وجہ سے ہماری ملت پر لگا تھا، ایدھی صاحب مرحوم نے دکھی انسانیت کی مذہب رنگ و نسل اور طبقاتی تفرفیق سے بالاتر ہو کر ایسی خدمت کی کہ وطن عزیز کے سنگین دشمن بھی انکی خدمات پر تعریف کیے اور خراج تحسین پیش کیے بغیر نہ رہ سکے۔۔ وہیل چئیر پر اپنی معذوری کے عذرکو بالائے طاق رکھتے ہوئے ۸۰، ۹۰ سال کا یہ بوڑھا شخص دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے چندہ جمع کرنے کی غرض سے سڑکوں پر مارا مارا پھرتا دکھائی دیا تو اس غیور قوم کی آنکھیں بھر آئیں اور لوگ جوق در جوق اس مسیحا کا سہارا بننے لگے۔۔ انسانیت کیلئے اس قوم کی خدمات کی داستاں یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی، دہشتگردی اور بدامنی کیخلاف بھی اس قوم کی قربانیاں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں، تاریخ بتائے گی کہ کس طرح اس قوم کے معصوم بچے سکول میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نتیجے میں درندوں کی بھینٹ چڑھ گئے، تاریخ بتائے گی کہ یہ قوم حقیقی طور پر کون ہے اور کیا ہے۔ تاریخ اگر ستم ظریف اور جانبدار نہ ہو تو ضرور بتائے گی کہ کیسے ڈاکٹر عمر سیف نامی پاکستان کے نامور کمپیوٹر سائنٹسٹ نے پوری دنیا مین اپنی تخلیقانہ صلاحیتوں اور جدید کمپیوٹر سے متعلق علوم پر دسترس کا لوہا منوایا۔۔۔ ڈاکٹر عمر سیف پاکستان کے وہ کمپیوٹر سائنسدان ہیں جن کو۲۰۰۶ میں مائیکروسافٹ ریسرچ سے ڈیجیٹل انکلوژن ایوارڈ ملا، ۲۰۰۸ میں انہوں نے ایم آئی ٹی ٹیکنوویٹر ایوارڈ حاصل کیا۔ اسی سال انہیں مارک ویزر ایوارڈ اور IDG CIO Technology Pioneer ایوارڈ بھی ملا۔ اگست ۲۰۱۴ میں سیف کو تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں خدمات کے لئے حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔ ۲۰۱۵ میں اور پھر ۲۰۱۶ میں انہیں ۵۰۰ بااثر مسلمانوں میں شامل بھی کیا گیا تھا۔ یہی نہیں مارچ ۲۰۱۷ میں انہیں برطانوی کونسل نے پیشہ ورانہ کامیابی ایوارڈ کے زمرے میں ایلومنی ایوارڈ سے نوازا، اپریل ۲۰۱۸ میں ، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹکنالوجی فار ڈویلپمنٹ کے استعمال کے لیے انہیں یونیسکو کا چیئر مقرر کیا گیا۔
اسی طرح جنگ کے محاذ پر دشمنوں کو ناکوں چنے چبوانے والے اس قوم کے ہیرو میجر عزیز بھٹی بھی اس قوم کے لیے فخر کا باعث ہیں، جنہوں نے ملک و ملت کے دفاع میں دشمنوں کے برسائے گئے گولوں کو سینہ سپر ہو کر سینے پر لیا، ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو جب بھارت نے پاکستان پر شب خون مارنے کی ناکام کوشش کی تو اسوقت ایک مرد مجاہد راجا عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کر رہا تھا۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ ۹ اور ۱۰ ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔ انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجا عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ اسی دوران دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ ان پر آن لگا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ اس دن۱۲ ستمبر ۱۹۶۵ء کی تاریخ تھی۔ اس عظیم قربانی کے عوض سب سے بڑا تمغا نشان حیدرمیجر راجا عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیا۔ یہی جذبہ ہے جو آج بھی اس نوجوان نسل میں ۱۴ اگست یعنی یوم آزادی کی اہمیت کی صورت میں موجود ہے، یہی درس تھا جو عزیز بھٹی سے اس قوم کے جوانوں میں آزادی اور یوم آزادی کی اہمیت بٹھا گیا۔ اوراسی جذبے کو سنبھالے ہوئے آج بھی یہاں لوگ ۱۴ اگست کا دن اسی ملی جوش و جذبے سے مناتے ہیں، ہر گلی، ہر چھت، ہر کونے اور ہر چوک پر سبز ہلالی پرچم سر بلند کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں سے یہ قوم اگر زوال پذیر ہے تو اسکی بنیادی وجہ انہی اخلاقی اقدار کا بتدریج کم ہوجانا ہے جو ہم نے اپنی میراث میں پا کر بھی یکسر فراموش کر رکھی ہیں۔۔
چھوڑ دی ہم نے جو اسلاف سے میراث تھی پائی
ثریا سے زمیں پہ ہم کو آسماں نے دے مارا
حافظ رضا رسول hafiz.raza@city42.tv