جب میری خود سے ملاقات ہوئی
ریحانہ یونس
زندگی میں صرف اُٹھنا ،بیٹھنا ،کھانا ،پینا اور سونا جاگنا ہی نہیں ہوتا بلکہ ہمیں اس زندگی کو خود دل وجان سے جیتے ہوئے دوسروں کو بھی راستہ دکھا نا ہوتا ہے ۔ ہماری سوچیں ہمیشہ ہمیں اپنا غلام بنا کر رکھتی ہیں اور ہم کولہو کے بیل کی طرح انھی سوچوں کے گرد گھومتے ہوئے زندگی کو گزار دیتے ہیں ۔ ہمیں اپنا مقصدِ حیات نظر نہیں آتا لیکن اس میں غلطی ہماری اپنی ہوتی ہے کیونکہ ہم نے کبھی خود سے ملاقات کی ہی نہیں ہوتی ہے تو پھر ہم کیسے نئی دُنیا کے خواب دیکھ سکتے ہیں ۔ ہمیں اپنے آپ کو ہر حال میں ایک دوسرے سے مختلف ثابت کرنے کا شوق تو ہوتا ہے لیکن جذبہ نہیں ہوتا ۔ہمیشہ یہ بات یاد رکھیے جذبے ہی تاریخوں میں رقم کیے جاتے ہیں عرفِ عام میں دیکھا جائے تو اک جنونی انسان ہی ہمیشہ اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہتے ہیں
آ پ سب نے قائدِ اعظم کا وہ قول تو سُنا ہی ہو گا کہ : ” ایک شخص بن کرنہ جیو! بلکہ ایک شخصیت بن کر جیو کیونکہ شخص تو مر جاتا ہے لیکن شخصیت ہمیشہ زندہ رہتی ہے ۔”
آپ میرے موضوع کو دیکھ کر حیران ضرور ہوئے ہوں گے کہ انسان کی خود سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ؟ تو جناب سُنیے انسان سے خود کی مُلاقات ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی خوبیوں کو جاننا ،اپنے مقصد کو پہچاننا ۔ اگر یہ ملاقات کامیاب ہو جائے تو انسان کا کامیاب ہونا ایک اٹل حقیقت بن جاتا ہے ۔ہمیں قدرت نے ایک اعلیٰ کردار کا مالک بنایا ہے اور بہت سی خوبیوں سے نوازا بھی ہے لیکن ہمیں اپنی ان خوبیوں کا ادراک ہی کب ہوتا ہے ۔ کردار کی مضبوطی واحد مضبوطی ہوتی ہے جو کہ انسان کو فرش سے عرش تک پہنچا دیتی ہے ۔ بقول شیکسپیئر : ‘اگر اپنا کردار مضبوط کرنا ہو تو خواہشات کو دباؤ اور تکالیف کو برداشت کرو ۔” کتنی خوبصورت بات کی ہے جس کا مفہوم یہی نکلتا ہے کہ اگر آپ نے جنگ لڑنی ہے اور تلوار جب تک تیز نہیں ہو گی تو دشمن کا مقابلہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ تلوار کو سان پر رگڑو تو ہی وہ تیز ہوتی ہے اسی طرح مشکل حالات ہی انسان کو زندگی جینے کا گُر سکھاتی ہیں ۔اپنی شخصیت سے ملاقات ایسے ہی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنی صلاحتوں کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں ۔
اگر کوئی انسان زندگی کی تلخیوں کی وجہ سے جینا اور ہنسنا بھول گیا ہے تو اپ اُس کی ہلکی سی چھوٹی سی کوشش کو بھی سراہتے ہوئے اُسے دوبارہ زندگی کی طرف لاسکتے ہیں ۔ کسی دوسرے انسان کودوبارہ زندگی کی طرف لانا جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے اور یہ کام کسی ماہرِ نفسیات کا نہیں بلکہ آ پ کی اپنی سوچوں اور خوبیوں کا ہوتا ہے ۔ انسان کی ذات ایک سپرنگ کی طرح ہوتی ہے ۔جس کو اگر کوئی دباتا جائے دباتا جائے تو ایک دن وہی سپرنگ اُچھل کر باہر آجا تا ہے ۔ یہی حال آپ کا بھی ہو سکتا ہے لیکن خدارا آپ اپنے ساتھ ایسا نہ ہونے دیں اور نہ ہی اپنے پیاروں کے ساتھ ۔ آنسوؤں کو طاقت بنائیں نہ کہ کمزوری ۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں جب تک آپ خود سے ملاقات نہیں کریں گے آپ کی ترقی کے راستے نہیں کُھلیں گے۔ اسی لیے خود سے مُلاقات کریں آنکھیں بند کر کے گہرے سانس لیتے ہوئے اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا آپ کی ذات آپ سے مل کر خوش ہے ؟ کیا آپ کی خود سے مُلاقات خوشگوار رہتی ہے ؟ ارے بھئی اُٹھیں آئیں اور چائے کا کپ پکڑیں باہر برآمدے میں یا چھت پر یا ٹیرس پر ٹہلتے ہوئے یا کوئی کتاب پڑھتے ہوئے ہلکا سا مسکرائیے ا ور کہیں ۔ واہ جناب ! آج تو خود سے ملاقات کر کے مزہ آگیا ، کتاب کے مثبت موضوع تو بالکل میری شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ہاں میں ایک مثبت انسان ہوں اور جب بھی مجھے خود سے ملنا ہوتا ہے تو میں اپنی خوبیوں کے بارے میں سوچتا ہوں پھر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں بہت سوں سے بہتر ہوں
Think positive ,do positive
Make positive assumptions in your mind
It works like magic or may be strong than magic
جینا سیکھیں ہماری کامیابیاں ہماری منتظر ہیں ۔