جبینِ روشن کا ایک درخشاں دور
ریحانہ یونس
savvy.ssurdu@savvyschool.edu.pk
مارچ 23 کا دن اک نئی بہار کے ساتھ آتا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے کتنے ویرانوں کی رونقیں دوبارہ سے بحال ہو گئیں ہیں ایک عجیب سی خوشی سے پورے پاکستان کی روح سرشار ہو جاتی ہے ۔خاص طور پر وہ لوگ تو خوشی سے پُھولے نہیں سماتے جنھوں نے وہ دور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ وہ دن تھا جب برصغیر کے مسلمانوں کی پوری کائنات کو ہریالی مل گئی تھی –اس دن نعرہءِ تکبیر سے پورا منٹو پارک لرز رہا تھا کہ اچانک ایک باوقار شخصیت پُر اعتماد انداز میں چلتی ہوئی سٹیج کی طرف آئی اور اُس نے ایک ایسا فیصلہ سُنایا جس نے تمام مسلمانوں کے دلوں میں ایک نئی اور پُر مقصدزندگی کی لہر دوڑا دی ۔
قائم ہوا وہ دن تو سانس میں سانس آئی
قائد کی آواز سب کے لیے بہارلے آئی
کہتے ہیں کہ جب کوششیں تھک جاتی ہیں تو وہ جنون کی شکل اختیار کر جاتی ہیں اور پھر یہی جنون انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے ایک الگ وطن حاصل کرنے کا جنون ہی تھا جس نے محمد علی جناح کو سکون سے نہ بیٹھنے دیا اور آخر کار وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ۔ قرار دادِ پاکستان وہ اُمید تھی جب منظور ہوئی تو برِ صغیر کے سب مسلمانوں کو اپنی منزل اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگی –
جن کو جنون ہو جیتنے کا ہر میدان میں
وہ لوگ کبھی اُونچی اُڑانوں سے گھبرایا نہیں کرتے
قائدِ اعظم کی انتھک محنت نے اقبال کا خواب شرمندہءِ تعبیر کر دیا ۔اس دن کی صبح کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے پھر غلامی کا سورج نہیں دیکھا کیونکہ اُن کو اپنی زندگی کے لیے ایک ایسی روشن شمع مل گئی تھی کہ جس کی لو نے ان کی روحوں کو اتنا سرشار کر دیا تھا کہ وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو گئے تھے بلکہ نہ صرف تیار ہوئے تھے اُنھوں نے تو اس کا بھرپور ثبوت بھی دیا تھا اپنے قدموں پر چل کر تحریکِ پاکستان میں جن بہادروں نے حصہ لیا اُن کے مسکن خاک میں بھی بنے لیکن اس مثال نے سب کے لیے ایک نئی زندگی کی بنیاد رکھی اور اقبال کے شاہیں اپنے حق کے لیے ان تمام غیر مسلم گِدھوں سے شیر کی طاقت سے بھی زیادہ لڑے ۔ لہو کو پانی کی طرح بہا دیا لیکن اپنے ہدف سے بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹے ۔ یہی وہ جنون تھا جس نے ایک کمزور اور ناتواں قوم کو اپنے حق کے لیے لڑنے پر مجبور کر دیا تھا ۔
لیکن آج 23 مارچ کا دن صرف ایک تفریح کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ہم لوگ اس دن کا انتظار صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ہم اپنے اپنے کاموں سے فراغت حاصل کر کے اپنی نیند پوری کر سکیں گے ۔ ہم نے بس شہروں کو سجانا سیکھا ہے اور نعرے لگانا سیکھا ہے کیا ہم اپنے اُس عہد کو یاد کرتے ہیں جو ہمارے اسلاف نے اپنے قائد سے کیا تھا؟ کیا ہم اپنے ملک کو وہ سب دے پارہے ہیں جو اس کا حق ہے ؟ تو اس کے جواب میں ہمارے دل سے ایک ہی آواز آئے گی نہیں ،نہیں ،نہیں ۔ یہ ہمارے ضمیر کی آواز ہے جو پچھلے پچھتر سالوں سے ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے لیکن ہم اس کی آواز پر کان نہیں دھرتے ۔آج آسمان بھی چیخ چیخ کر ہمیں اُس عہد کی یاد دلاتا ہے لیکن ہم کان نہیں دھرتے ۔ دن چاہے 23 مارچ کا ہو یا 14اگست ، یومِ دفاع ہو یا کسی مشہورشخصیت کی پیدائش یا وفات کا دن ہمیں دنوں کو منانے سے غرض نہیں ہونی چاہیے بلکہ اُن ایام کی اہمیت کوجاننا چاہیے کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر یہ ایام ہماری زندگی میں اتنی اہمیت کے حامل ہیں ۔ آئیے ! عہد کرتے ہیں کہ ہم ان ایام کو صرف تفریح کے طور پر نہیں بلکہ ان ایام کواپنی آئندہ نسلوں کی روحوں میں بھی جذب کریں گے تاکہ وہ بھی وطن کی محبت سے سرشار ہو سکیں