ایک خط

ہاں! میں وہی پاکستان ہوں

ریحانہ یونس | لیکچرر اردو  و  ایجوکیشن،کو آرڈینیٹر برائے اردو مضمون اسکول و کالج

میری طاقت ایمان،اتحاد،تنظیم میں ہے۔میں ایک پُروقار شخصیت کی محنت کا ثمر ہوں اور ایک ایسے انسان کا الہام ہوں جس نے مسلمان جوانوں کی عُقابی روح کو پرواز کرنا سکھایا۔مجھے اپنی پہچان پر فخر حاصل ہے کہ میرے سینے میں ایسے لوگوں کا خون ہے جنھوں نے اصل اور حقیقت میں محبت کا ثبوت دیا کہ دھرتی ماں کی عزت اور اُس کی لاج کے لیے جان کا نذرانہ کیسے پیش کرتے ہیں۔میں سندھ کی اُس سرحد کو بہت فخر سے دیکھتا ہوں جس سرحد سے ایک مسلمان نوجوان جس کی عمر محض ۷۱ برس تھی داخل ہوا اور اسلام دشمنوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور مسلمانوں کی لاج رکھی۔جب میرے سینے پر اُس شخص کے قدم چلتے تھے جس نے دن رات ایک کر کے انگریزوں اور ہندوؤں سے میرا وجود الگ کیا تو مجھے ٹھنڈ پڑتی تھی۔میرے سینے میں وہ تمام جواہر مدفون ہیں جن کو اللہ نے خاص نیک مقاصد کے لیے چُنا تھا۔ میں ایک ایسی تجربہ گاہ بنا جہاں پر اسلام کے اُصولوں کو آزمایا گیا۔ہاں! میں وہی ہوں جس کی چھتر چھایا میں بہت سے مہاجرین نے پناہ لی تھی۔میرے سینے پر اُس عظیم انسان کے قدم بھی موجود ہیں جس نے عشقِ رسولﷺ کی گراں قدر
مثال پیش کی اور اس کے اس قدم نے اقبال کے اس شعر کو حقیقت بنا دیا

بے خبر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

 اُس نے ایک ایسے گستاخ کو جہنم واصل کیاجس نے نبی ﷺکی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی اور انگریزوں سے حفاظت چاہی آج وہ عاشقِ رسولﷺ میرے سینے کے اندر دفن سکون کی نیند سو رہا ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک بچہ ماں کے سینے سے لپٹ کر میٹھی نیند کی آغوش میں ہے۔میں وہی ہوں جس نے بہت سے شُہدا ء کو اپنی آغوش میں سُلایا ہے۔میری فضاؤں میں اللہ ُاکبر کا نعرہ گونجتا رہا ہے اور گونجتا رہے گا۔میرے تمام شہروں میں اسلام میں بول بالا ہے۔ہاں!میں وہی پاکستان ہوں جس کو بہت سے جگری یاروں نے مل کر اپنے خون سے سجایا تھا اور میری شاہراؤں پر اپنی محبتیں نچھاور کی تھیں

لیکن یہ کیا؟اب میں یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا میں وہی ہوں جس کو اسلام کے اُصولوں کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔کیا میرے سینے میں مدفون شہداء کو اُن کی شہادت کا ثمر مل رہا ہے؟کیا غریب عوام کو انصاف کی سہولت حاصل ہے؟یقینا نہیں،کیونکہ وطن پرستی کی جگہ پر اب مادہ پرستی آگئی ہے اور دھکم پیل شروع ہو چکی ہے۔کیا میں یہی سب دیکھنے کے لیے ہوں؟ میں رو رو کر اللہ کے آگے فریاد کرتا ہوں کہ مجھے میری اُسی اولاد سے دوبارہ نواز جو میری خاطر  اور سب سے بڑھ کر تیرے اسلام کی خاطر دُشمنوں سے ٹکرا جاتے تھے۔

یا اللہ! کہاں گئے وہ لوگ وہ جوشیلے لوگ جو کہتے تھے کہ وطن کی خاطر جان بھی قُربان ہے۔ادھر دھرتی ماں کی حفاظت تو کیا  لوگوں کو اپنی حفاظت بھی نہیں کرنی آرہی ہے سب دھکم پیل اور بھیڑچال کا شکار ہو چکے ہیں۔ہر کوئی اپنے مفاد کی خاطر لڑ تا نظر آ رہا ہے،تو میری خاطر کون لڑے گا؟میری روح چیخ چیخ کر پُکار رہی ہے  کیامیں وہی پاکستان ہوں جس کو تمہارے اسلاف نے جان کے نذرانے پیش کر کے حاصل کیا تھا۔

میرے پیارے بیٹو!دیکھو اُس مینار کو جو قرارداد کی نشانی ہے جو آج بھی میرے سینے پر بڑے شاہانہ انداز میں کھڑا ہے لیکن آج پاکستان کی حالت دیکھ کر اُس کے خون کے آنسو جب میرے سینے پر گرتے ہیں تو میرا کلیجہ کٹ جاتا ہے۔ہر کوئی یہاں پر اپنی مست زندگی جی رہا ہے لیکن کوئی اِس ملک کی خاطر کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ہر بات کی بڑائی کا تناسب کاغذ کے ٹکڑوں پر ہے جس کی جیب جتنی بھاری ہے وہی کامیاب ہے۔کیا میرا وجود انہیں بُنیادوں پر قائم ہوا تھا۔آج انصاف کا ترازو بھی ڈول گیا ہے کوئی بھی کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتا ہے بس ہر کوئی اپنی میں َ بچانے کے چکر میں لگا ہوا ہے۔

                              یا اللہ!یا اللہ!مجھے حشر سے پہلے وہی جوش اور ولولہ دکھا دے جو کبھی میرے جوانوں میں ہوا کرتا تھا،وہی علی برادران وہی لیاقت علی خان دوبارہ بھیج دے تاکہ میں حشر میں اِن لوگوں کی ایمان داری اور خلوص کی گواہی دے سکوں۔آمین!

you may contact the writer @ rehana.younus@yahoo.com

                  

Quaid-e-Azam's Advice to Students & Expectations

1 Advice to students Jinnah placed great importance on the...

جب میری خود سے ملاقات ہوئی

ریحانہ یونس زندگی میں صرف اُٹھنا ،بیٹھنا ،کھانا ،پینا اور...